وہ اپنے رب کو ہے سب سے پیارا
ہے سارے نبیوں کا بھی دُلارا
اُسی کو بخشی ہے دید رب نے
اُسی کے شایاں تھا وہ نظارا
اُسی کی آنکھوں میں حسنِ عالم
اُسی کے قدموں میں سروری ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
وہ نورِ قرآن بن کے آیا
عظیم احسان بن کے آیا
کلامِ ربی اُسی پہ اُترا
وہ رب کی پہچان بن کے آیا
وہ بزمِ جنت یہ بزمِ دُنیا
اُسی نبی کے لیے سجی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
وہ رب کی طاقت کی اِک نشانی
ہے کون خلقت میں اُس کا ثانی
وہ ہو مقابل تو کفر لرزاں
وہ رسمِ ہمت کا آپ بانی
اُسی سے ایمان میں حرارت
وہی تو مقصودِ زندگی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
جہاں میں ہرسُو بہار تُجھ سے
ہے بے کسوں کا وقار تُجھ سے
جو دشمنِ جان بن کے آئے
ملا ہے ان کو بھی پیار تجھ سے
تری چٹائی کی عظمتوں پر
ازل سے قرباں سکندری ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
ہر اِک صحیفے کا مان تم ہو
ہر ایک خطبے کی جان تم ہو
تمہاری سیرت بتا رہی ہے
کلامِ ربی کی جان تم ہو
حبیبِ رب نے جو کہہ دیا ہے
اُسی میں انساں کی بہتری ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
غرورِ انساں مٹانے آیا
گرے ہوؤں کو اُٹھانے آیا
وہ درسِ اخلاق دے کے سب کو
ہر اُجڑی بستی بسانے آیا
اُسی کے نعلین کی چمک سے
شعورِ انساں میں روشنی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
وہی ہے ٹوٹے دلوں کا چارا
ہر ایک مشکل میں وہ سہارا
ملی ہے شانِ عظیم اُس کو
شفاعتوں پہ وہ مسند آرا
وہ بخشوائے گا رب کو کہہ کے
یہ اُمتی ہے یہ اُمتی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
وہ سورج اُلٹا پھرا رہے ہیں
درخت کو بھی چلا رہے ہیں
کریں اشارہ تو کنکروں سے
وہ اپنا کلمہ پڑھا رہے ہیں
دو لخت ہے چاند بھی فلک کا
اگر وہ انگشت اُٹھ گئی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
گر اُن کی دہلیز سے گزرنا
نگاہ نیچی ہمیشہ ڈرنا
خُدا نے آداب ہیں بتائے
نہ اپنی آواز اونچی کرنا
جو جھک کے ملتے ہیں دوسروں سے
ہر اِک نبی اُن کا مقتدی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
وہ سب پہ رحمت لُٹا رہے ہیں
وہ دامنِ دِل بچھا رہے ہیں
ہیں لاکھ غافل ہم اُنکے در سے
مگر وہ پھر بھی نبھا رہے ہیں
کرم کے انداز ہیں نرالے
یہاں جفا ہے نہ بے رُخی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
پناہِ انساں حرم تمہارا
نہیں ہے کس پر کرم تمہارا
اے ماؤں بہنوں زرا بتاؤ
ہے کس نے رکھا بھرم تمہارا
یہ عزتیں سب اُنہی کا صدقہ
اُنہی کے باعث سلامتی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے
ہرایک عزت کا تاج اُس کا
عطا و بخشش مزاج اُس کا
یہ دیکھ کر چیخ اُٹھے ہیں دشمن
دلوں کی دھڑکن پہ راج اُس کا
شکیلؔ اُس کا ہے ہر زمانہ
وہی حکمرانِ ہر صدی ہے
جہاں میں ہر سو نبی نبی ہے