کچھ ایسے جُھوم کے آنکھوں میں جھلملائی ہے شام
کہ دھیان میں چمک اُٹھا ہے مثلِ ماہِ تُمام
وہ بھولا بسرا نام
وہ نام جس سے بج اُٹھتی ہیں گھنٹیاں دل میں
بلند ہوتی تھی پھر عشق کی اذاں دل میں
اذاں ۔ جنوں کا پیام
وہ نام جس کے ادب سے نگاہ جُھکتی تھی
وہ نام جس کی تلاوت کبھی نہ رُکتی تھی
سجود ہوں کہ قیام
وہ نام آتا زباں پر تو دل دھڑکتا تھا
پھر اُس کے بعد کوئی بھی نہ کھینچ سکتا تھا
بہکتے دل کی لگام
وہ نام ہم جسے دن رات گنگناتے تھے
وہ جس کے حرف ہمیں روزوشب پِلاتے تھے
سرورِ عشق کے جام
مگر یہ بات ہمیں وقت نے سکھائی ہے
کہ ہر ملن کا مقدر صرف جدائی ہے
نہیں کسی کو دوام
سو ہم بھی آخر اُسی اختتام کو پہنچے
وہ اب جہاں بھی ہے، اُس نیک نام کو پہنچے
ہمارے دل کا سلام
اردوئے معلیٰ
پر
خوش آمدید!
گوشے۔۔۔
Menu