وہ جب خیرِ مجسم ہادی قوم و مَلَل آئے
جبینِ لات و عزّیٰ پر پریشانی سے بل آئے
خدا کی صنعتِ تخلیق کے ہیں نقشِ اول وہ
پہن کر خلعتِ ہستی وہی پہلے پہل آئے
صفات و ذاتِ رب کی کب خبر تھی اہلِ دنیا کو
وہ بن کر کاشفِ اسرارِ ذاتِ لم یزل آئے
بدل کر انبیاء آتے رہے ہیں بزمِ ہستی میں
نہ تھا جن کا بدل آخر میں وہ نعم البدل آئے
عرب کا چاند چمکا جب ردائے نور پھیلاتا
برائے خیر مقدم سیکڑوں تارے نکل آئے
ہوئے سیرابِ جامِ بادۂ توحید سب میکش
وہی جب میکدہ بردوش ساغر در بغل آئے
مسائل زندگی کے تھے بہت الجھے ہوئے لیکن
سبھی دشواریوں کا مرحبا وہ لے کے حل آئے
مقدس قابلِ تعمیل آساں اور مکمل ہے
ہمارے واسطے لے کر جو دستور العمل آئے
بد اندیشوں نے کھائی منہ کی جب اس ذات میں ڈھونڈا
کسی پہلو برائی کا کوئی پہلو نکل آئے
براقِ شوق پر جاتی ہے دنیا ارضِ بطحا تک
عقیدت سے مگر ان کی گلی میں سر کے بل آئے
زمانہ گرچہ گزرا ہادی برحق کی آمد کو
مگر محفل بہ محفل ذکر یوں ہے جیسے کل آئے
حرم دیکھوں خدایا روضۂ شاہِ حرم دیکھوں
وہ سال آئے وہ دن آئے گھڑی آئے وہ پل آئے
سپردِ خاکِ طیبہ ہو نظرؔ یہ مشتِ خاک اپنی
خوشا قسمت وہیں ہوتے جو پیغامِ اجل آئے