وہ جس کا سایہ ازل سے نشانِ رحمت ہے
مدارِ جاں پہ وہی سائبانِ رحمت ہے
حضور قحط و وبأ کے حصار میں ہیں ہم
حضور آپ کی ہستی زمانِ رحمت ہے
لبوں کا ورد ہے سرکارِ رحمتِ عالم
وہ نخلِ عشق کا امکاں ، جہانِ رحمت ہے
وہ جس کی ہستی پہ نازاں ہے کبریا خود بھی
زمینِ اُنس ہے وہ ، آسمانِ رحمت ہے
حضور آپ کی سیرت تلاوتِ قرآن
’’حضور آپ کا اسوہ جہانِ رحمت ہے،،
سرور و کیف ملا نعت سے مجھے اشعرؔ
مرا یقین ہے وہ جان ، جانِ رحمت ہے