وہ زُلف عنبریں وہ سراپا خیال میں
رہتا ہے شاہِ دین کا چہرہ خیال میں
ترقیمِ نعتِ شاہِ دو عالم کے واسطے
لازم رہے حضور کا اسوہ خیال میں
دل میں سما گئیں ہیں مدینے کی رونقیں
رہتا ہے ہر گھڑی مرے روضہ خیال میں
آنکھوں میں بس گئی ہے جو صورت حضور کی
دِکھتا ہے چار سُو مجھے جلوہ خیال میں
خوشبو نے رگِ جان میں خیمے لگا لیے
جب آ گیا ہے ان کا پسینہ خیال میں
محبوبِِ دو جہاں تھے مدینے میں جلوہ گر
وہ آ گیا ہے میرے زمانہ خیال میں
جس خوش نصیب راہ سے گزرے تھے شاہِ دیں
چوما ہے ناز نے بھی وہ رستہ خیال میں