اردوئے معلیٰ

وہ مالکِ ہر دو عالم ہیں، وہ جود و سخا کے ہیں پیکر

دیتے ہیں طلب سے بڑھ کر ہی، لوٹاتے نہیں وہ لا کہہ کر

 

اوصاف حمیدہ کیا لکھوں پروازِ تخیل کم ہے بہت

یوں نعت کی صورت بن جائے گر مل جائے جبریل کا پر

 

مجھ عاصی اور بے مایہ کو بھی اذنِ حضوری بخشا ہے

اس طرزِ عنایت پر آقا میں صحنِ حرم میں ہوں ششدر

 

یہ فیض ہے ان سے نسبت کا، قربت کا اور عقیدت کا

ہیں راہِ ہدایت کے تارے بو بکر و عمر عثماں حیدر

 

حسنین و علی کے صدقے میں، بیٹے ہوں میرے نیک شہا

اور بی بی زینب کے صدقے بیٹی کو حیا کی دیں چادر

 

محشر ہے بپا جسم و جاں میں، بے جان کھڑا ہوں میں یعنی

کیا پیش کروں اے جانِ کرم، ہے گنبدِ خضرٰی پیشِ نظر

 

ہر سمت کرم کی بارش ہے ہر اور عطا کا ڈیرا ہے

کیا اوجِ عنایت ہے تیرے دربار پہ اے میرے سرور

 

یہ عطر ہوائے طیبہ میں شامل ہے پسینے سے تیرے

اس عطر کے آگے دست بہ کف خوشبوے خُتَن، مشک و عنبر

 

ہر دشمن آپ کا ابتر ہے، اور ذکر رفعنا سے جاری

ہے قادرِ مطلق کا فرماں، انا اعطینٰک الکوثر

 

اے منظر اُن کی نظروں کا فیضانِ اتم تو دیکھ ذرا

گر کفر کے نرغے میں بھی ہوں کلمہ پڑھ لیتے ہیں کنکر

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات