وہ ماہِ طیبہ مری آنکھ کو دکھایا گیا
پھر ایک حشر مرے دل میں بھی اٹھایا گیا
خدا کا شکر ہے پھر بھی نبی کی راہ پہ ہوں
ہزار بار مرے دل کو ورغلایا گیا
نظامِ شمسی پہ واجب ہوا طواف اس کا
ستارہ خاکِ مدینہ سے جب اٹھایا گیا
انھی کی آل کی خادم ہے کائنات سبھی
مجھے تو روزِ ازل سے یہی بتایا گیا
کشش وہاں سے مجھے اس لیے بھی ہوتی ہے
خمیر میرا اُسی خاک سے اٹھایا گیا
یہ رات ختم تری بات کرتے کرتے ہوئی
تمام دن ترے اذکار میں بِتایا گیا
ہمیں بھی نعت کی دولت عطا ہوئی ہے فدا
ہمارے دل کو بھی مدحت کدہ بنایا گیا
اُٹھو کہ اُٹھ کے نئی نعت لکھ کے بھیجو فدا
اذانِ فجر سے پہلے مجھے جگایا گیا