وہ مت آئے اِدھر ، جو خود نگر ہے
برائے منکسِر مدحت نگر ہے
رُکے کیوں کامِ ناعِت ، ہاتھ میں جب
کلیدِ قفلِ ابوابِ اثر ہے
بہ فیضِ گنج بخشیِ شہِ خلد
کوئی داتا ، کوئی گنجِ شکر ہے
ترا خالد صفت ، پیشِ ہزاراں
نہتا بے خطر سینہ سپر ہے
دلِ انور مکینِ حجرۂِ قدس
مکانِ سرِّ وحدت ان کا سر ہے
خزف خصلت دلوں کو یہ بتادو !
’’ نگاہ مصطفیٰ آئینہ گر ہے ‘‘
ہو اس انگشت کوکیا شَق میں مشکل؟
کھلونا جس کے بچپن کا قمر ہے
جو وہ ناراض ہوں تو در ہے دیوار
اگر راضی ہوں تو دیوار در ہے
لیا جائے گا نام ان کا ، معظم
جبھی دنیائے دل زیر و زبر ہے