اردوئے معلیٰ

وہ منزلِ حیات ہے وہ جانِ انقلاب

نورِ شعور بھی وہی وہ ہی مرا نصاب

 

عشقِ حضور کے بنا بے لطف زندگی

سب رونقیں فضول ہیں ہر دلکشی عذاب

 

خطبات عالیہ ترے منشورِ آگہی

رشکِ بہار لہجہ ہر اک لفظ ہے گلاب

 

پتھر سرشت لوگوں کے لہجوں کی تلخیاں

کب لاسکیں کبھی تری ہمت میں اضطراب

 

دانشوری یہی ہے کہ ہر موڑ پہ سدا

سیرت کی روشنی سے ہی کرنا ہے اکتساب

 

تیری نگاہِ پاک سے جن کو ملا عروج

وہ منزلِ یقین کے رہبر تھے لاجواب

 

پتھر درخت جانور دنیائے انس و جاں

تیرے کرم کا سب پہ برستا رہا سحاب

 

ہم لوگ اس قدر ہیں حیا سے شکیلؔ دور

سیرت کا نور کررہا ہے ہم سے اب حجاب

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔