وہ نکلا جس گھڑی غارِ حرا سے
چمک اُٹھا جہاں اُسکی ضیا سے
نہ پوچھو طلعتِ روئے منور
جہاں میں روشنی ہے نقشِ پا سے
ملے گی ہر اذیت سے رہائی
کوئی سیکھے ازل کے رہنما سے
تری گفتار پُر تاثیر ہوگی
اگر آغاز ہو صلے علیٰ سے
محبت ہے اگر محبوبِ رب سے
تو پھر بچ جاؤ گے رب کی سزا سے
ہے عزت رب کے ہاں ذکرِ نبی سے
ملے کیا خاک لوگوں کی ثنا سے
سبھی شاہوں کو میرا مشورہ ہے
نہ ٹکرانا کبھی اُنکے گدا سے
ترے عشاق نے تو جب بھی مانگا
تری چاہت ہی مانگی ہے خدا سے
کوئی پوچھے کہاں سے نعت سیکھوں
تو کہنا سیّدی احمد رضاؒ سے
شکیلؔ اِک ذرہِ بے آبرو تھا
بھرا کاسہ ہے اب اُنکی عطا سے