اردوئے معلیٰ

پری نہ تھی مرے گاؤں میں کوئی باغ نہ تھا

وہ ایک خواب کہ جس کا کوئی سراغ نہ تھا

 

تمھاری ٹوٹی ہوئی آس کا میں کیا کرتا

مجھے تو اپنی مرمت سے ہی فراغ نہ تھا

 

عجیب حبس تھا دیوار و در سے لپٹا ہوا

ہوا نہ آئی کہ گھر میں کوئی چراغ نہ تھا

 

گناہِ عشق سمجھتے تھے پارسا، لیکن

قبا سفید تھی اور اس پہ کوئی داغ نہ تھا

 

وہ تشنگی تھی کہ لب پر تھا کوئی دشت آباد

ہمارے حصے میں اک زہر کا ایاغ نہ تھا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ