اردوئے معلیٰ

پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

ادھر بھی کرم کی نظر مورے آقا

 

کٹھن کس قدر تھا وہ پل سر زمیں پر

گئے جب تھے معراج پر مورے آقا

 

میسر ہو جس رات خوابِ زیارت

نہ اس رات کی ہو سحر مورے آقا

 

وہی پل تو ہیں یاد آنے کے قابل

جو در پر ہوئے ہیں بسر مورے آقا

 

کریں معبدِ نعت میں حرف سجدے

عنایت ہو ایسا ہنر مورے آقا

 

دیارِ منور کی یادوں میں اکثر

مری آنکھ رہتی ہے تر مورے آقا

 

سخن ہے مرا مثلِ شاخِ بریدہ

ودیعت ہَوں برگ و ثمر مورے آقا

 

بنے قلبِ اشفاقؔ ایسا مزکٰی

رہے آپ کا مستقر مورے آقا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ