پھر ایک اور تماشہ گہِ محبت میں
جنون چلنے لگا چال اک قیامت کی
مٹا سکے نہ غرورِ مسافرت اب تک
نہ حادثے نہ کوئی مشکلیں مسافت کی
نہ جانے کتنے مہ و سال کھو گئے ہوںگے
یہ داستانِ مسافت ہے ایک مدت کی
عجیب رنگِ سفر تھا کہ جس طرف بھی گئے
دریچے کھولتی آئی ہوا محبت کی
جو ٹھیک ٹھیک چلے ، راہ نے قدم چومے
بھٹک گئے بھی تو ہر راہ نے مدارت کی
نظر پڑی جو کسی شوخ کی تو اک فقرہ
کسی حسین نے دیکھا تو کچھ شرارت کی
ہر ایک گام نئی اپسراء پسِ چلمن
نئے نقوش نئے رنگ و روپ و قامت کی
ہر ایک سانس نئی خوشبوئیں بدستِ صبا
نئے مزاج نئے طرز و طور و نکہت کی
کسی نے اٹھتی ہوئی آنکھ سے سوال کیا
کسی نے بڑھتے ہوئے شوق کی شکایت کی
کسی نے صاف کہا مدعا طلب کر کے
کہیں پہ رمز اشاروں کی یا حکایت کی
کسی نے جھک کے قدم بوسیِ سفر کر لی
کسی نے تن کے بیاں خواہشِ رفاقت کی
جو رقص کرتے بگولے تو پھول برساتے
سنبھال لیتی ہوا دشتِ شامِ غربت کی
کہیں پہ کھلتے ہوئے بوسہِ وفا ملتے
کہیں پہ چمپئی کلیاں دبی محبت کی
کہیں کلائی میں کنگن ہماری خواہش کی
کہیں ہتھیلی پہ مہندی ہماری شہرت کی
کہیں پہ کوہِ ندا بن کے منتظر محمل
کہیں پہ ہوش ربا داستاں عنایت کی
کہیں پہ رات کی رانی پہ سانپ کا پہرا
کہیں پہ رجز نما گفتگو رقابت کی
کہیں پہ طعنہ و دشنام شہر یاروں کے
کہیں پہ سازشی نظریں نئی عداوت کی
جہاں بھی اپنے تہور نے سونت لی تیغیں
تو چند مخملی ڈھالوں نے بھی حفاظت کی
ہر ایک معرکہِ جسم و جان سے آگے
پھر ایک بزمِ طرب خیز فتح و نصرت کی
پھر ایک اور تماشہ گہِ محبت میں
پھر ایک اور کہانی عجیب ہیئت کی
پھر ایک اور فسانہ کہ دم بخود کر دے
پھر ایک اور فضا اور ایک ساعت کی
ابھی تو رقص پڑا ہے بہت سا باقی بھی
کہ سانس چلتی ہے اب تک بھی ایک وحشت کی