پھر رائیگاں گئے ہیں ستم ساز گونج کر
رزقِ ہِوا ہوئے مرے الفاظ گونج کر
کوئی دیارِ عشق میں ہوتا تو بولتا
آخر کو رہ گئی مری آواز گونج کر
اس خوش نوائے خواب کی سنگت نہیں ملی
خاموش ہو چکا ہے مرا ساز گونج کر
میں تھا ہی ایک نعرہِ مستانہِ جنوں
معدوم ہو گیا ہوں بصد ناز گونج کر
بد نیتوں کے کان کھڑے کر گئی صدا
انجام ہو گیا مرا آغاز گونج کر
ضرب المثال ہو گئی عریانیاں مری
کھلنے لگے جہان میں اب راز گونج کر