پھر لگا ہے دوستوں کا تازیانہ مختلف
تیر دشمن کی طرف ہیں اور نشانہ مختلف
بے نیازی برطرف، اب لازمی ہے احتیاط
وقت پہلا سا نہیں اب، ہے زمانہ مختلف
آشیانہ چھوڑنے کی اک سزا یہ بھی ملی
روز لاحق ہے تلاشِ آب و دانہ مختلف
اک شکم پرور زمیں رکھتی ہے پابستہ مجھے
اور وفائیں مانگتی ہیں اک ٹھکانہ مختلف
دوسرا رخ بھی وہی نکلا تری تصویر کا
کاش ہوتا کچھ حقیقت سے فسانہ مختلف
اپنے بچوں کو ظہیرؔ انسانیت کا درس دو
نفرتوں کے شہر میں رکھو گھرانہ مختلف