پھول رخسار کو ، آنکھوں کو کنول ہی کہیے
اور جب کہیے بہ اندازِ غزل ہی کہیے
موت ہر لمحہ قریب آتی ہے ہر سانس کے ساتھ
سازِ انفاس کو بھی سازِ اجل ہی کہیے
حسن آوارہ ہے ، بیگانہ ہے آرائش سے
اس کی تعریف میں بے ربط غزل ہی کہیے
دفن ہر قبر میں ہے حسرت و امید کی لاش
کوئی مرقد ہو اسے تاج محل ہی کہیے
دل میں سب جمع ہیں اپنے ہوں کہ بیگانے سروشؔ
اس خرابے کو بھی اک رنگ محل ہی کہیے