پہاڑ، دشت، سمندر ٹھکانے دریا کے
زمیں کو رنگ ملے ہیں بہانے دریا کے
کبھی سمندروں گہرا، تو ہے کبھی پایاب
بدلتے رہتے ہیں اکثر زمانے دریا کے
سفینہ سب کا سمندر کی سمت میں ہے رواں
مگر لبوں پہ مسلسل ترانے دریا کے
نہیں چٹان کے سینے پہ یوں ہی چادرِ آب
ہیں آبشار کے پیچھے خزانے دریا کے
بھنور کی آنکھ میں آنکھیں یہ ہم نے کیا ڈالیں
ہمی پہ جم گئے سارے نشانے دریا کے
ہمی کو رہنا ہے تشنہ کنارِ دریا پر
تمام جشن بھی ہم کو منانے دریا کے
لہو بہے کہ سیاہی فرات و دجلہ میں
مرے زوال کے قصے، فسانے دریا کے