چاند گر آپ کے تلووں کا نظارہ کرلے
دعوئ حسن سے پھر خود ہی کنارہ کرلے
اک طرف پائے شہ دیں کو اٹھا کر رکھ دوں
دوسری اور تو کنعان ہی سارا کرلے
تجھ کو گر حسن حقیقت کی طلب ہے خورشید
ان کی چوکھٹ کو ذرا جاکے بہارا کرلے
روسیہ ہو کے بھی گر حسن کا طالب ہے تو
حسن بے مثل کے جلووں کا نظارہ کرلے
آئینہ پاے مقدس کا میں دیتا ہوں قمر
سامنے رکھ کے اسے خود کو سنوارا کرلے
دھوپ محشر کی کڑی اور فدا ہے حیراں
زلف کی چھاؤں میں اب اس کو خدارا کرلے