چراغ نیند کی محراب تک نہیں آیا
قسم ہے آنکھ میں اک خواب تک نہیں آیا
سبھی نے شوقِ شہادت میں سر کٹا دئیے ہیں
کوئی بھی جنگ کے اسباب تک نہیں آیا
ہمارے عشق سے کیسے ملے جنوں کو فروغ
ہمارا عشق تب و تاب تک نہیں آیا
ابھی مشیتِ خالق نہیں پڑھی تونے ؟
ابھی تو سورہء احزاب تک نہیں آیا
وہ رنگ زنگ ہوا یا بنا دھواں آخر
جو رنگ اس لبِ نایاب تک نہیں آیا
بھرے ہیں مشکوں میں مشکیزگاں نے دریا تک
ہمارے ہاتھ میں تالاب تک نہیں آیا
ندی چڑھی ہے کئی بار میری آنکھوں کی
مگر یہ سلسلہ سیلاب تک نہیں آیا
بہت سے ہاتھ مجھے کھینچتے رہے دربار
مگر میں منصب و القاب تک نہیں آیا
عدو کے سامنے پھیلاؤں کس طرح حیدر
یہ ہاتھ تو کبھی احباب تک نہیں آیا