چشم در چشم اک آئینہ سجا رکھا ہے
ہر بُنِ مُو کو اسی کام لگا رکھا ہے
جب سے جانا کہ وہ اس راہ سے ہو کر گزرے
تب سے آنکھوں کو وہیں فرش بنا رکھا ہے
ان کے آنے کی خبر جب سے سنی ہے ہم نے
دل کے آنگن کو عقیدت سے سجا رکھا ہے
آج دھڑکن ہے یہ کیوں تیز ذرا تھم کے چلے
ان کی آہٹ پہ سماعت کو لگا رکھا ہے
بعد مرنے کے اسی شہر کی مٹی اوڑھیں
اک اسی آس پہ جیون کو بِتا رکھا ہے
ہوں کرم بار جو آقا بھی اسی ہی لمحے
اب قضا نے بھی تقاضے کو بڑھا رکھا ہے
ٹل ہی جائے گی مری آپ ہی مشکل نُوری
آلِ اطہر کو وسیلہ جو بنا رکھا ہے