اردوئے معلیٰ

چلو اداسی کے پار جائیں

بکھر رہا ہے خیال کوئی
سوال کوئی، ملال کوئی
کہاں ہے؟ کس کی؟ مجال کوئی
کہ آنکھ جھپکے
ترے تصور سے دور جائے
مگر یہ ضد کہ ضرور جائے
تمہارے غم میں سسک سسک کر
اکھڑ چکی ہے طناب غم کی
مگر کسی کی مجال کیا ہے
کہ روک پائے
یہ سلسلہ ہائے روزو شب
اور اداس رستہ
اداسیوں کے شجر بھی دیکھو
کہ گاہے گاہے اُگے ہوئے ہیں
تو آؤ اپنی نگاہِ پرنم
سے آب دے کر
نمو بڑھائیں اداسیوں کی
کسی کو روکیں،کسی سے روٹھیں
کسے منائیں؟
کسے منا کر گلے لگائیں؟
کبھی ملونا کہ مسکرائیں
جو آگئے ہو تو کیا ٹھہرنا
چلو اداسی کے پار جائیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات