چمک گئی مری قسمت درود پڑھتے ہوئے
ٹلی ہر ایک مصیبت درود پڑھتے ہوئے
بھٹک رہا تھا کہیں دشت نامرادی میں
ملی خیال کو رفعت درود پڑھتے ہوئے
پہونچ گیا جو مقدر سے ان کی گلیوں میں
تو میں کروں گا زیارت درود پڑھتے ہوئے
خدائے پاک مجھے تاج کامرانی دے
کروں گا نعت کی خدمت درود پڑھتے ہوئے
ہنر سے ، قوت بازو سے مل نہیں سکتی
ملے گی دولت شہرت درود پڑھتے ہوئے
ہر ایک سانس کی قیمت وصول ہو جائے
ملے جو جام شہادت درود پڑھتے ہوئے
سلگ رہا تھا مرا جسم آتش غم سے
ملی ہے اس کو برودت درود پڑھتے ہوئے
خموش تھا تو کوئی پوچھتا نہیں تھا مجھے
بڑھا ہے دست رفاقت درود پڑھتے ہوئے
ابھی طوالت دشت سراب کا تھا اسیر
ملی رہائی کی نعمت درود پڑھتے ہوئے
درود پاک کے اعجاز سے نہیں واقف؟
مرے مکاں کو ملی چھت درود پڑھتے ہوئے
نصیب ہوتی ہے عشاق مصطفےٰ کو مجیبؔ
متاعِ گلشن جنت درود پڑھتے ہوئے