چھوڑ دو اہل بیاں ، آہ و فغاں ، جیتے رہو
مار ہی ڈالے نہ احساس ِ زیاں ، جیتے رہو
میں نے سیکھا ہے اذیت میں بھی ہنستے رہنا
مجھ کو آتی ہے یہی ایک زباں ، جیتے رہو
یار یہ بار تو ہم سب نے اٹھایا ہوا ہے
زندگی ہو بھی اگر کوہِ گراں ، جیتے رہو
اے مرے ضبط پہ سب انگلی اٹھانے والو
میں تو دشمن کو بھی کہتی ہوں ، میاں ، جیتے رہو
بس وہی ماں کی دعائیں تھیں جو کام آتی تھیں
کوئی مشکل میں نہیں کہتا یہاں ، جیتے رہو