چھپ گیا سورج یہ کہہ کر شام سے
لے سبق دنیا مرے انجام سے
روح کو ہم نے ہزاروں دکھ دئے
نفس کو رکھا بڑے آرام سے
ایک بازیچہ سمجھ کر اہل دل
کھیلتے ہیں گردش ایام سے
سوچئے ہر زاویے سے دہر میں
کیسے گزرے زندگی آرام سے
کر دیا ساقی نے ساغر چور چور
چھین کر اک رند تشنہ کام سے
کون در پر رہ گیا دم توڑ کر
دیکھتے تو تم اتر کر بام سے
ہو گیا برہم نظام میکدہ
ایک آواز شکست جام سے
آخرش فرط مصائب پر جلیؔ
روتے روتے سو گیا آرام سے