چھپ گیا ہے یوں نگاہ گردش ایام سے
گھر مرا منسوب ہے مشکل کشا کے نام سے
جن کی عادت یا علی کا ورد ہے شام و سحر
وہ کبھی ڈرتے نہیں شمشیر خوں آشام سے
ہم علی کے گھر کے ہیں باطل سے ڈر سکتے نہیں
کہہ رہا تھا بچہ بچہ بزدلان شام سے
پاؤں رکھ دیتا ہے انگاروں پہ بے خوف و خطر
عاشقِ شیر خدا ڈرتا نہیں انجام سے
مرجعِ کونین ہے شاہ نجف کا آستاں
ہے کہاں محروم کوئی ان کے فیض عام سے
ابن حیدر کے لہو سے سبز ہیں سب برگ و بار
نشر ہوتی ہے صدا یہ گلشن اسلام سے
کر کے روشن طاق دل میں یا علی کی مشعلیں
رات کے دریا میں بھی چلتا ہوں میں آرام سے
جو حوالے کردے اکرام علی کے، بالیقیں
دل رہے محفوظ اسکا نفس کے ہر دام سے
میں ہوں مولا جس بشر کا اسکے مولا ہیں علی
خاص فرمایا نبی نے کس کو اس انعام سے!!
دے دیا ہے میں نے اپنا دل علی کے ہاتھ میں
اس لیے ڈرتا نہیں ہوں عشق کے آلام سے
یا علی مولا علی اپنے گداگر نورؔ کو
ایک جرعہ بخش دو عشق و وفا کے جام سے