اردوئے معلیٰ

چہرۂ ماہ و خور نہیں چہرۂ حورِ عیں نہیں

مثلِ نبیِ مجتبیٰ چہرہ کوئی حسیں نہیں

 

در صفِ انبیاء نہیں در صفِ مرسلیں نہیں

ان سا کہاں ملے کوئی، ان سا کوئی کہیں نہیں

 

تختِ نبوت آپ کا صلِّ علیٰ، علی الدوام

سب کے تو جانشیں ہوئے، آپ کا جانشیں نہیں

 

آپ حبیبِ کبریا، آپ امامِ انبیاء

امر ہے یہ مسلّمہ اس میں چناں چنیں نہیں

 

ان کی کتاب آخری حکمت و علم سے بھری

کون سی بات اس میں ہے ایسی کہ پر یقیں نہیں

 

ذات ہے سو کریم ہے خلق ہے سو عظیم ہے

شاہدِ عدل ہے خدا کہتے یہ کچھ ہمیں نہیں

 

لذتِ گفتگو خوشا تا رگ و روح ہے رسا

اس کے مقابلے میں کچھ لذتِ انگبیں نہیں

 

مرکزِ کیف و نور ہے دیکھ لے ان کا آستاں

موت ہے گھات میں تری عمر کا کچھ یقیں نہیں

 

سادہ و دل نشیں رواں تیری ہے اے نظرؔ زباں

کس کے لبوں پہ بزم میں کلمۂ آفریں نہیں

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات