سُن اے اَن دیکھی سانولی! تری آس مجھے ترسائے
مری رُوح کے سُونے صحن میں ترا سایہ سا لہرائے
ترے ہونٹ سُریلی بانسری ، ترے نیناں مست غزال
تری سانسوں کی مہکار سے مرا حال ہوا بے حال
کچھ دُھوپ ہے اور کچھ چھاوٗں ہے ترا گھٹتا بڑھتا پیار
انکار میں کچھ اقرار ہے ، اقرار میں کچھ انکار
مجھے بستی بستی لے پھرا تری سُندرتا کا عشق
مکّہ ، یثرب ، اور قونیہ ، دِلی ، مُلتان ، دمشق
میں سُدھ بُدھ کھو کر پی گیا من مستی والا جام
اب دُکھ میرا سُکھ چین ہے اور درد مرا آرام