کافی ہیں خلاصی کو سرِ حشر یہ نعمات
لکھتا ہوں سرِ نامہ تری نعت تری بات
ہر ایک زمانے میں رہا ذکرِ محمد
ہر مطلعِ مصحف سے نمایاں ہے تری ذات
ترتیل سے کھلتے رہے گلہاے عقیدت
اک جذب میں جب بھی پڑھیں قرآن کی آیات
مازاغ کے سرمے سے مزین ہیں وہ آنکھیں
اور زلفِ منور سے چلی نور کی برسات
خوش بخت ہیں سب راہِ درودی کے مسافر
انساں ہوں کہ جنات و جمادات و نباتات
اک میم ہی لکھا تھا تری مدح میں آقا
یک لخت سجی قوسِ قزح بر سرِ صفحات
اک مژدۂ جاؤک سے ڈھارس ہے سرِ حشر
اُنظُر کے وظیفے سے ہیں مملو مرے جذبات
ساقط ہوئی جاتی ہے مرے دل کی یہ دھڑکن
میں پیشِ مواجہ ہوں لیے نعت کی سوغات
حاضر ہے بہ صد شوق تہی دست یہ منظر
احرامِ ثنا باندھے ہوئے بر سرِ میقات