کام کوئی تو جنوں زاد کے سر رہنے دے
اب کے دیوار اٹھاتا ہے تو در رہنے دے
ربط ہر چند فقط ایک تاثر ہی سہی
اور کچھ دیر مجھے زیرِ اثر رہنے دے
بے سبب دید کے ہیجان میں مر جائے گا
جب نہیں تابِ نظارہ تو نظر رہنے دے
تو نے پہلے بھی تو رہنے ہی دیا تھا مجھ کو
اب بھی مت سوچ مجھے بارِ دگر رہنے دے
میں بھلا حسرتِ پرواز سے بڑھ کر کیا ہوں
کم سے کم میرے تخیل کے ہی پر رہنے دے
تو چڑھے دن کی تمازت ہے اسے چھو بھی نہیں
اس شفق پوش کے گالوں پہ سحر رہنے دے
اب کے رکتا ہوں تو رک جائے گی دل کی دھڑکن
قریہِ خواب مجھے محوِ سفر رہنے دے
تو کہ شاداب شگوفے سا بھلا لگتا ہے
شعر تھا ایک سنانے کو مگر رہنے دے