کبھی دردو سوز بن کر کبھی اشک بن کے آئے
تری مہربانیاں ہوں تو یہ دل قرار پائے
تری یاد رونقِ جاں ترا ذکر روحِ ایماں
یہی نُور تیرگی میں مجھے راستہ دکھائے
یہی کیف میرے اندر اِسی زُعم پہ ہوں نازاں
میں جھُکا ہوں تیرے در پہ مجھے کون اب جھکائے
وہی جانِ عالمیں ہی مقصودِ زندگی ہیں
دل میں کسی کی چاہت اب کس طرح سمائے
ترے ذکر کی ہے برکت میرا گھر ہوا منوّر
ہو نظر ترے کرم کی تو یہ دل بھی جگمگائے
بن تیرے کون آقا ہے بے کسوں کا والی
رحمت سے اپنی کہہ دو دکھ درد سب مٹائے
اِک سائلِ مدینہ میں تڑپ رہا ہوں کب سے
ترے در پہ حاضری کا مژدہ کوئی سنائے
مولا شکیلؔ کو بھی سوزو ہنر عطا ہو
نعتِ نبی سے یہ بھی دِل کے دئیے جلائے