کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے
لوگ رستے میں ہوں اتنے تو کنارے چلئے
اب تو مجبور یا مختار گزارے چلئے
قرض جتنے ہیں محبت کے اتارے چلئے
جس نے بخشی ہے مسافت وہی منزل دے گا
ہو کے راضی برضا اُس کے اشارے چلئے
اُن کے لائق نہیں کچھ اشکِ محبت کے سوا
بھر کے دامن میں یہی چاند ستارے چلئے
معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات
آ گئی شامِ سفر اپنے دُوارے چلئے
ہم بھی قائل نہیں رستے کو پلٹ کر دیکھیں
ماضی ڈستا ہے تو پھر ساتھ ہمارے چلئے
دشتِ ہجراں بھی گزر جائے گا عزّت سے ظہیرؔ
نامِ نامی اُسی رہبر کا پکارے چلئے