کریم اپنی ہی خاکِ عطا پہ رہنے دے
زمیں سے آیا ہوا ہوں سما پہ رہنے دے
بکھر نہ جاؤں کہیں برگِ بے شجر کی طرح
کریم، شاخِ کرم کی وفا پہ رہنے دے
بہت ہی تیز ہواؤں نے گھیر رکھا ہے
کریم ، ہاتھ مرے دل دِیا پہ رہنے دے
خطائیں لایا ہوں نعتوں کی طشت میں رکھ کر
یہ ایک پردہ مری ہر خطا پہ رہنے دے
عجیب طرح کی سرشاریوں میں ہوں آقا
جبینِ شوق ذرا نقشِ پا پہ رہنے دے
کریم بھی ہے وہ قہّار بھی ہے اور جبّار
سلامِ خیر کا سایہ دُعا پہ رہنے دے
اُدھیڑ ڈالے گا مجھ کو یہ ہجر کا خدشہ
گلابِ وصل کو شاخِ لقا پہ رہنے دے
اُسی کے دامنِ رحمت کو تھام لے مقصودؔ
خدا کی مرضی حبیبِ خدا پہ رہنے دے