کر اِہتمام بھی ایماں کی روشنی کے لیے
دُرود شرط ہے ذکرِ محمدی کے لیے
تُلا ہوا ہے کرم بندہ پَرورِی کے لیے
کشادہ دامنِ رحمت ہے ہر کسی کے لیے
نہیں ہے حُسنِ عمل پاس آنسوؤں کے سِوا
چلا ہوں لے کے یہ موتی درِ نبی کے لیے
مِرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رحمتِ عالم
میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لیے
تمہارے مہرِ کرم کے ظہور سے پہلے
ترس رہی تھی بھری بزم روشنی کے لیے
تمہاری یاد کو کیسے نہ زندگی سمجھوں
یہی تو ایک سہارا ہے زندگی کے لیے
لگی ہیں روضۂ پُر نور پر مِری آنکھیں
تڑپ رہا ہوں شب و روز حاضری کے لیے
تمہارے ذکر کی مستی ہے بندگی سے قریب
سجود کی نہیں کچھ قید بندگی کے لیے
تمہاری نعت سُنائے، سُنے، پڑھے، لکھے
بڑا شرف ہے یہ خالدؔ کی زندگی کے لیے