اردوئے معلیٰ

کر رہے ہیں اِس جہاں میں جس کی ہم مدح و ثنا

شافعِ روزِ جزا ہے وہ حبیبِ کبریا

 

چہرہِ انور کے گر ہو رُو بُرو ماہِ تمام

وہ بھی اِک سائل ہی لگتا ہے تمہارا دِلربا

 

تیری چشمانِ کرم میں جھانک لے گر زندگی

پھر کہاں شکوے دکھوں کے پھر کہاں خوفِ قضا

 

تیرے اُبرو کے اشارے کی یہ کیسی شان ہے

مال و دولت عقل و دانش سب ہوئے اُس پر فدا

 

تیرے لب ہائے مبارک گرہلیں تو یوں لگے

ہو گیا موسم سہانا جم کے برسے گی گھٹا

 

تیرے دل میں گر خیال آجائے قبلہ اور ہو

تیرے رـب کا فیصلہ بھی یہ ہے ’’جو تیری رضا‘‘

 

تیرا سینہ ہے امانت گاہِ ذاتِ کبریا

مخزنِ علم و یقیں ہے مرکزِ صدق و صفا

 

تیرے ہر اِک لفظ پہ واری جبینِ علم ہے

اِس فصاحت اِس بلاغت کا نہیں کوئی سرا

 

رُک گیا پاؤں کی ٹھوکر سے اُحد کا زلزلہ

اب بھی لیکن کفر پہ لرزا ہے تیرے رُعب کا

 

تیرے اندازِ محبت کی جو پالے اِک جھلک

جانبِ دنیا قدم اُس کے اٹھیں کیسے بھلا

 

ہے تمہاری سوچ کی وسعت شہا اُس اوج پر

جس کے آگے عقل خم ہر فکر کا سر جھک گیا

 

عجز تیرا ہے دہر میں ایک ایسا آستاں

جس پہ ہر اِک شوکت و سطوت کو جھکنا ہی پڑا

 

خُلق تیرے کی بدولت ہیں عدو بھی دم بخود

حیرتوں میں گم رہے گی تاابد خلقِ خدا

 

تیرا ہر اک فیصلہ ہے آگہی کا بابِ نو

بعد جس کے ہو گیا آغازِ دورِ اِرتقا

 

بزم تیری میں وقارِ خامشی محوِ درود

ہے دلوں کی گفتگو میں نیّتوں کی بس صدا

 

تیری آمد پر کہا ہر اک جہاں نے جھوم کر

یا نبی یا مصطفیٰ صد مرحبا صد مرحبا

 

کیا ملے گا پڑھ کے دیکھو تو سہی اُن پر درود

پتھروں کے بدلے جو دیتے رہے سب کو دعا

 

در نبی کا سائبانِ عفو و رحمت ہے شکیلؔ

مل رہا ہے سب وہیں سے وہ مری کانِ عطا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔