کر لیں کتنا بھی اہتمام یہ لفظ
بن نہیں سکتے مدحِ تام یہ لفظ
بھیجتے ہیں درود اور سلام
صورتِ جذبِ ناتمام یہ لفظ
باریابی کی آرزو میں ہیں
شاہِ عالَم ! ترے غلام ، یہ لفظ
خاص ہیں ، معتبر ہیں ، روشن ہیں
نعت آثار عام خام یہ لفظ
لب یُوحیٰ کی لمس یابی سے
ہو گئے صاحبِ مقام یہ لفظ
گُلتساں ثنا میں کرتے ہیں
مثلِ بادِ صبا ، خرام یہ لفظ
صبحِ تعبیر میں نمود کریں
عرصۂ خواب کے تمام یہ لفظ
نہیں شایانِ شانِ پیغمبر
میرے بے مایہ ، میرے عام یہ لفظ
اوجِ ذکرک کے بامِ حیرت پر
نعت جویا ہیں صبح و شام یہ لفظ
شرح توصیفِ مصطفیٰ کے لیے
لے کے آیا ہُوں زیرِ دام یہ لفظ
اذنِ تسطیر تک ابھی مقصودؔ
خامۂ شوق ہی میں تھام یہ لفظ