کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیلِ راہِ نجات تھا
اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
ترے دشمنوں نے ترے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
ترے حسن خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
ترے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایتِ کم نظر ! ترے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسمِ رخِِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا