اردوئے معلیٰ

 

کس قدر رتبہ ہے برتر والئی کونین کا

قبلۂ کونین ہے در والئی کونین کا

 

سورہے ہیں بے خطر ہجرت کی شب مولا علی

خوف کیا ہو جب ہے بستر والئی کونین کا

 

امہاتِ کل علی خیر النسا، حسنینِ پاک

ہے گھرانہ کتنا اطہر والئی کونین کا

 

انکی نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

ہر نفس ہے یوں منور والئی کونین کا

 

جس کے دم سے ضوفشاں ہے ہستیٔ ماہ و نجوم

ہے سہانا نوری پیکر والئی کونین کا

 

تا قیامت حجرۂ نوری میں ان کے ساتھ ہے

وہ حنانہ جو تھا منبر والئی کونین کا

 

کیوں نہ ہو قسمت تری پھر باعثِ صد رشک و ناز

جب گدا ہے کس کا منظرؔ، والئی کونین کا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ