اردوئے معلیٰ

کس نفاست سے اور قرینے سے

رات اتری فلک کے زینے سے

 

ساحلی بستیوں کا شورہیں ہم

دور ہو جائیں گے سفینے سے

 

جھڑ گئے زندگی کی پائل سے

ہائے کیا لوگ تھے نگینے سے

 

چاک وحشت کے بھر نہیں پائے

تُو ابھی جھانکتا ہے سینے سے

 

چشمِ حیراں میں خواب کے سوتے

سوکھ جاتے ہیں اشک پینے سے

 

کانچ کے ٹوٹنے کا چھناکا

چیخ ابھری ہے آبگینے سے

 

عشق تنہا نہیں ہے مدفن میں

دل بغل گیر ہے دفینے سے

 

اور ، ائے سر بسر مسیحائی

جی اگر بھر گیا ہو جینے سے؟

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ