کس کی بساط میں ہے رفُو چاکِ شوق کا
بالفرض کام چارہ گروں تک بھی آ گیا
وہ جس کے ڈر سے میں نے مسافت تیاگ دی
آخر وہ باد گرد گھروں تک بھی آ گیا
مستول رہ گئے ہیں سفینے کے نام پر
پانی بلند ہو کے سروں تک بھی آ گیا
نوبت وہ آ گئی ہے کہ پرواز کر سکے ؟
یعنی ترا گریز ، پروں تک بھی آ گیا
کیا فرق پڑ گیا ہے جو میں رینگتا ہوا
بستی کے بے تپاک دروں تک بھی آ گیا
میں جلد باز ، سوزِ تجسس نہ سہہ سکا
ورنہ پیام ، نامہ بروں تک بھی آ گیا