اردوئے معلیٰ

کس کی بساط میں ہے رفُو چاکِ شوق کا

بالفرض کام چارہ گروں تک بھی آ گیا

 

وہ جس کے ڈر سے میں نے مسافت تیاگ دی

آخر وہ باد گرد گھروں تک بھی آ گیا

 

مستول رہ گئے ہیں سفینے کے نام پر

پانی بلند ہو کے سروں تک بھی آ گیا

 

نوبت وہ آ گئی ہے کہ پرواز کر سکے ؟

یعنی ترا گریز ، پروں تک بھی آ گیا

 

کیا فرق پڑ گیا ہے جو میں رینگتا ہوا

بستی کے بے تپاک دروں تک بھی آ گیا

 

میں جلد باز ، سوزِ تجسس نہ سہہ سکا

ورنہ پیام ، نامہ بروں تک بھی آ گیا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات