کس کے آگے کون ہے جلوہ نما مت پوچھیے
وجد میں ہے آج کیوں قصرِ دنا مت پوچھیے
ابنِ شیبہ اور بی،بی آمنہ کا لاڈلا
کیسی آن و بان سے دولہا بنا مت پوچھیے
دیکھ کر اک تلواے نورِ مجسم کی جھلک
کیوں انھیں جبریل نے لب سے چھوا مت پوچھیے
امِ ہانی کے مکاں سے قافلہ اک نور کا
کتنی آب و تاب سے کیسے چلا مت پوچھیے
بعدِ سدرہ لامکاں تک بے رکے چلتے گئے
کیسے حضرت مصطفٰی کس کو پتا مت پوچھیے
دیکھتی تھیں کیوں اُنھیں حورانِ جنت صف بہ صف
اس نمک آگیں صباحت کی ادا مت پوچھیے
اس شرف پر کس قدر نازاں تھا وہ مسرور تھا
عرش تھا جب زیرِ پاے مصطفٰی مت پوچھیے
دو کماں تھا فاصلہ عبد و الہ کے درمیاں
پھر اچانک کم ہوا کتنا ہوا مت پوچھیے
کیا نظارہ ہے حبیب، اللہ کے مہمان ہیں
میزبانی کر رہا ہے خود خدا مت پوچھیے
جب نہ تھے جانِ دو عالم اس زمیں پر جلوہ گر
منظرِ دہرِ رواں کیوں رک گیا مت پوچھیے