کمالِ عجز سے ہے، عجزِ باکمال سے ہے
یہ نعت ہے، یہ عقیدت کے خدو خال سے ہے
مجھے بھی ناجی سفینہ میں رکھ مرے مولا
مری بھی نسبتِ نوکر انہی کی آل سے ہے
سخی پہ ہے وہ جسے، جیسے، جب، عطا کر دے
عطا کا واسطہ عرضی سے ہے نہ حال سے ہے
بہار کو ترے کوچے سے ہے وہی نسبت
جو رنگ و نکہتِ ُگل کو وجودِ ڈال سے ہے
عجیب طرح کی سرشاریوں میں ہوں آقا
گزارا جب سے ترے ریزۂ نوال سے ہے
مجھ ایسے فرد سے ممکن کہاں ثنا تیری
بس ایک عرض ہے جو صیغۂ نڈھال سے ہے
بتا مدینے گیا تھا تو کھو گیا تھا کہاں
سوال میرا بجا طور پر سوال سے ہے
ہے ان کی مدح خود ان کی عطا سے ہی ممکن
یہ جذبِ حال سے ممکن نہ حرفِ قال سے ہے
کرم کے بعد بھی قائم رہی نویدِ کرم
معاملہ مرا تجھ جیسے لاج پال سے ہے
ہوائیں لائی ہیں مقصودؔ ُمشکِ کوئے اِرَم
بلاوا آیا مجھے قریۂ جمال سے ہے