کوئی بھیک رُوپ سُروپ کی، کوئی صدقہ حسن و جمال کا
شب و روز پھرتا ہوں دربدر، میں فقیر شہرِ وصال کا
کسے فکر بُود نبُود کی، کسے ہوش ہے مہ و سال کا
مری آںکھ میں ہے بسا ہوا کوئی مُعجزہ خدوخال کا
بڑی شُستگی سے نبھا گیا سبھی چشم و لب کے معاملے
سو کھلا کہ صرف حسیں نہ تھا، وہ ذہین بھی تھا کمال کا
یہاں دوستوں کا ہجوم ہے مجھے اِس سے کیا، مجھے اُس سے کیا
مجھے علم ہے کہ ترے سوا کوئی حال نہیں میرے حال کا
یہاں دوستوں کا ہجوم ہے مجھے اِس سے کیا، مجھے اُس سے کیا
مجھے علم ہے کہ ترے سوا کوئی حال نہیں میرے حال کا
میرے حرف دشتِ خیال میں کہیں چین لیتے نہ تھے مگر
وہاں آ کے رام ہوئی غزل، جہاں رم تھا میرے غزال کا