کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمھارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
عمل کی میرے اساس کیا ہے بجز ندامت کے پاس کیا ہے
رہے سلامت بس ان کی نسبت میرا تو بس آسرا یہی ہے
عطا کیا مجھ کو دردِ اُلفت کہاں تھی یہ پُرخطا کی قسمت
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندہ پروری ہے
بشیر کہیے نذیر کہیے انہیں سراجِ منیر کہیے
جو سر بسر ہے کلامِ ربیّ وہ میرے آقا کی زندگی ہے
کسی کا احسان کیوں اُٹھائیں کسی کو حالات کیوں بتائیں
تم ہی سے مانگیں گے تم ہی دو گے تمہارے در سے ہی لو لگی ہے
اُنہی کے در سے خدا ملا ہے انہی سے اس کا پتہ چلا ہے
وہ آئینہ جو خدا نما ہے جمالِ حُسنِ حضور ہی ہے
شعور و فکر و نظر کے دعوے حدِّ تعیّن سے بڑھ نہ پائے
نہ چُھو سکے ان بلندیوں کو جہاں مقامِ محمدی ہے
یہی ہے خالدؔ اساسِ رحمت یہی ہے خالدؔ بنائے عظمت
نبی کا عرفان زندگی ہے نبی کا عرفان بندگی ہے