کوئی میرے اشک پونچھے ، کوئی بہلائے مجھے
یُوں نہ ہو لوگو! اُداسی راس آ جائے مجھے
عشق نے ایسے سُہانے رنگ پہنائے مجھے
گُل تو گُل ہیں ، چاند تارے دیکھنے آئے مجھے
ربِّ گریہ بخش! تجھ کو آنسوؤں کا واسطہ
دیکھ، کافی ہو چکی، اب عشق ہو جائے مجھے
کیا خبر اُس کے پلٹنے تک مرا کیا حال ہو
اُس سے کہنا جاتے جاتے دیکھتا جائے مجھے
جیسے اک تصویر سے ہوجائے وا البم تمام
تُو ملا تو سب پُرانے دوست یاد آئے مجھے
میں بفیضِ عشق روشن صُورتِ مہتاب ہوں
جس کسی میں دم ہو ، آئے اور گہنائے مجھے
درمیانہ قد ہے ، آنکھیں نَم ہیں ، فارس نام ہے
جس کسی کو بھی ملوں ، صحرا میں چھوڑ آئے مجھے