کوئی گفتگو ہو لب پر، تیرا نام آ گیا ہے
تیری مدح کرتے کرتے، یہ مقام آ گیا ہے
درِمصطفٰے کا منظر، مری چشم تر کے اندر
کبھی صبح آ گیا ہے، کبھی شام آ گیا ہے
یہ طلب تھی انبیاء کی رخِ مصطفٰے کو دیکھیں
یہ نماز کا وسیلہ، انہیں کام آ گیا ہے
جو سخی ہیں شہر بھر کے وہ گدا ہیں ان کے در کے
کہ کرم کا ان کے ہاتھوں میں نظام آ گیا ہے
دو جہاں کی نعمتوں سے تِرے در سے جو بھی مانگا
مِری دامن طلب میں وہ تمام آ گیا ہے
جسے پی کے شیخ سعدی بَلَغَ العُلیٰ پکارے
مرے دستِ ناتواں میں وہی جام آ گیا ہے
مرا قلب وہ حرا ہے جہاں وحیِ نعت اتری
یہ صحیفہِ مَحبّت مرے نام آ گیا ہے
وہ ادؔیب جس نے محشر میں بپا کیا ہے محشر
وہ کہیں گے آؤ دیکھو یہ غلام آ گیا ہے