کوئے رشکِ ارم کا ارادہ کروں
عجز کو قلب و جاں کا لبادہ کروں
اُن کے نامِ مبارک کی تابانیاں
رنگ منزل کروں، نُور جادہ کروں
میرے آقا ہیں خود قاسمِ نُورِ کُل
چاند سورج سے کیا استفادہ کروں
اُن کی راہوں سے ہے دل کو ایسا شغف
چاہتا ہُوں سفر پا پیادہ کروں
دل درِ شہ سے چمٹا، بقا پا گیا
جان بر سنگِ در ایستادہ کروں
اُن کو زیبِ معانی کی حاجت نہیں
پاسِ آداب حرفوں کو سادہ کروں
اُن کی نُورانی پاپوش مل جائے گی
پہلے احساس کو نُور زادہ کروں
چاہیے گر اماں کشتیٔ نُوح میں
خود کو خاکِ درِ خانوادہ کروں
وہ تھا مکہ جہاں سر کو کرنا تھا خم
یہ مدینہ ہے دل کو نہادہ کروں
اُن سے ملتا ہے مقصودؔ، جو چاہیے
چاہیے خوب دامن کُشادہ کروں