کون جانے شانِ جانِ عظمت و تکریم کو
جب سمجھ پائی نہ عقلِ کُل رُموزِ میم کو
یادِ قَدِّ مصطفیٰ میں جارہا ہوں سوئے حشر
سروِ گلزارِ جِناں آئے نہ کیوں تعظیم کو ؟
قرب کیا بخشا لبِ شیریں گَرِ آبار نے
آبِ ہستی مل گیا ہے کوثر و تسنیم کو
عاشقانِ مصطفیٰ کے واسطے قدسی جُھکے
’’ فادخُلوھا خالِدیں ” کہتے ہوئے تکریم کو
لوح و خامہ و پرِ روح الامیں کافی نہیں
نعتِ ذی اوصافِ لا مَحدود کی ترقیم کو
نارِ عِصیاں کو مِری گلشن کرے گا نور وہ
جس نے رکّھا آگ میں گلُفام اِبراہیم کو
تھا بَنام علم بھی دنیا میں غوغا جہل کا
رتبۂِ اَصلی اِک اُمّی نے دیا تعلیم کو
گلشنِ قرآنِ محبوبی سے رکّھا دُور ہے
بادِ ” اِنّا حَافِظُوں ” نے شعلۂِ ترمیم کو
وہ لَعیں کارِ خدا پر معترض ہے جو کہے
غیرِ عادل قاسمِ نعمات کی تقسیم کو
فضلِ رب سے واصِفِ نعلینِ شاہِ عرش ہوں
کیا میں سمجھوں پِھر معظمؔ خاکِ ہفت اقلیم کو