اردوئے معلیٰ

کوچہِ ویران ہائے سینہِ خاموش سے

دل دھڑکنے سے ابھرتی تھی جو آہٹ بھی گئی

 

گر چکا ہے دور دھرتی پر شہابِ آرزو

آسمانِ منتظر سے سنسناہٹ بھی گئی

 

لب کشیدہ رہ گئے ہیں بس لکیروں کی طرح

عشق کے گوتم کی آخر مسکراہٹ بھی گئی

 

بے ثمر نکلا ہے میرا سن رسیدہ لمس پھر

رائیگاں کورے بدن کی کسمساہٹ بھی گئی

 

چلچلاتی دھوپ نے یکلخت جو چندھیا دیا

چشمِ خیرہ سے تمہاری زلف کیا ہٹ بھی گئی؟

 

پی گیا ہے ہجر تیرے رس بھرے ہونٹوں کا رس

جگنوؤں سی آنکھ سے اب جھلملاہٹ بھی گئی

 

کھو گئیں آخر خموشی میں کھنکتی چوڑیاں

ریشمی ملبوس کی وہ سرسراہٹ بھی گئی

 

دم بخود ، محوِ تماشہ ہائے وحشت رہ گئے

مجمعِ حیرت زدہ کی بھنبھناہٹ بھی گئی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات