اردوئے معلیٰ

کُھلنے کا اب نہیں ہے یہ دروازہِ جنوں

قیدِ جنون بن گئی خمیازہِ جنوں

 

شاید ترے فقیر کی جھولی الٹ گئی

پھیلا ہوا ہے شہر میں شیرازہِ جنوں

 

نازک مزاج ، اپنے تخیل کو مت تھکا

تیری بساط میں نہیں اندازہِ جنوں

 

محوِ سفر کے ساتھ تری بازگشت تھی

یا دور گونجتا ہوا آوازہِ جنوں

 

جھڑنے لگی ہے جیسے کہولت ترے حضور

ائے نازِ نو بہارِ گلِ تازہِ جنوں

 

مشاطہِ خیال ترے تذکرے سے ہی

چہرے پہ تمتمانے لگا غازہِ جنوں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ