کچھ اور ہو گا رنگِ طلب ، جالیوں کے پاس
روتا رہوں گا مہر بہ لب ، جالیوں کے پاس
لکھوں کا جب قصیدۂ حُسنِ گُلِ مراد
سوچوں گا کچھ جدید لقب ، جالیوں کے پاس
مل جائے گی سُخن کو سند اعتبار کی
نعتِ نبی کہوں گا میں جب جالیوں کے پاس
اللہ دعا قبول کرے ، اہلِ حُب و شوق
پہنچیں ترے حضور میں سب ، جالیوں کے پاس
دن بھر وہ جالیاں ہوں نگاہوں کے سامنے
گزرے درِ حبیب پہ شب جالیوں کے پاس
شاہانِ ذی وقار سراپا سوال ہیں
بُھولے ہیں اپنے نام و نسب جالیوں کے پاس
صد مرحبا! تصورِ طیبہ کی یہ بہار
اب اپنے غم کدے میں ہوں ، اب جالیوں کے پاس
یہ بارگاہِ سیدِ عالم ہے ، احتیاط
اے جذبِ شوق ، حدِ ادب ، جالیوں کے پاس